§24ـ طلب کے تلے

گُل و یاسمن کل سے نا آشنا،
کل سے بے اعتنا
گُل و یاسمن اپنے جسموں کی ہیئت میں فرد
مگر۔۔کل سے نا آشنا، کل سے بے اعتنا
کسی مرگِ مبرم کا درد
اُن کے دل میں نہیں!

فقط اپنی تاریخ کی بے سر و پا طلب کے تلے
ہم دبے ہیں!
ہم اپنے وجودوں کی پنہاں تہیں
کھولتے تک نہیں
آرزو بولتے تک نہیں!
یہ تاریخ میری نہیں اور تیری نہیں
یہ تاریخ ہے ازدحامِ رواں
اُسی ازدحامِ رواں کی یہ تاریخ ہے،
یہ وہ چیخ ہے
جس کی تکرار اپنے من و تُو میں ہے
وہ تکرار جو اپنی تہذیب کی ہُو میں ہے!

تجھے اِس پہ حیرت نہیں
ہم اِس ازدحامِ رواں کے نشانِ قدم پر چلے جا رہے ہیں
بڑھے جا رہے ہیں
کہ ہم ظلمتِ شب میں تنہا
پڑے رہ نہ جائیں۔۔
بڑھے جا رہے ہیں،
نہ جینے کی خاطر
نہ اِس سے فزوں زندہ رہنے کی خاطر
بڑھے جا رہے ہیں، کسی عیب سے
رہزنِ مرگ سے بچ نکلنے کی خاطر،
جدائی کی خاطر!
کسی فرد کے خوف سے بڑھ رہے ہیں
جو باطن کے ٹوٹے دریچوں کے پیچھے
شرارت سے ہنستا چلا جا رہا ہے۔

arrow_right §23. یہ خلا پر نہ ہوا

§25. گماں کا ممکن۔جو تو ہے میں ہوں! arrow_left