§7ـ حزنِ انسان (افلاطونی عشق پر ایک طنز)

جسم اور روح میں آہنگ نہیں،
لخّت اندوزِ دل آویزیِ موہوم ہے تو
خستہِ کشمکشِ فکر و عمل!
تجھ کو ہے حسرتِ اظہارِ شباب
اور اظہار سے معذور بھی ہے
جسم نیکی کے خیالات سے مفرور بھی ہے
اس قدر سادہ و معصوم ہے تو
پھر بھی نیکی ہی کیے جاتی ہے
کہ دل و جسم کے آہنگ سے محروم ہے تو

جسم ہے روح کی عظمت کے لیے زینہِ نور
منبعِ کیف و سرور!
نا رسا آج بھی ہے شوقِ پرستارِ جمال
اور انساں ہے کہ ہے جادہ کشِ راہِ طویل
(روحِ یوناں پہ سلام!)
اک زمستاں کی حسیں رات کا ہنگامِ تپاک
اس کی لخّات سے آگاہ ہے کون؟
عشق ہے تیرے لیے نغمہِ خام
کہ دل و جسم کے آہنگ سے محروم ہے تو!

جسم اور روح کے آہنگ سے محروم ہے تو!
ورنہ شب ہائے زمستاں ابھی بے کار نہیں
اور نہ بے سود ہیں ایّامِ بہار!
آہ انساں کہ ہے وہموں کا پرستار ابھی
حسن بے چارے کو دھوکا سا دیے جاتا ہے
ذوقِ تقدیس پہ مجبور کیے جاتا ہے!
ٹوٹ جائیں‌گے کسی روز مزامیر کے تار
مسکرا دے کہ ہے تابندہ ابھی تیرا شباب
ہے یہی حضرتِ یزداں کے تمسخر کا جواب!

arrow_right §6. مکافات

§8. اتّفاقات arrow_left

I Too Have Some Dreams: N. M. Rashed and Modernism in Urdu Poetry

یہ ن م راشد کی نظم ہے ـ اس کا انگریزی ترجمہ اور ٹرانزلٹریشن میری کتاب کے ضمیمہ میں مل سکتا ہےـ اردو پڑھنے والوں کے لئے یہ پیج پیش کیا گیا ہےـ نستعلیق میں دکھانے کے لئے جمیل نوری نستعلیق فانٹ انسٹال کیجئے.