محمد سلیم الرحمن۔۔۔۔۔
ن م راشد کے پہلے شعری مجموعے ’’ماورا‘‘ میں شامل نظموں میں تھوڑا کچا
پن تھا۔ اس کے باوجود اردو کے روایت پسند ناقدین اور قارئین کو وہ بہت بے
تکی اور ناگوار معلوم ہوئیں، جیسے کبوتروں کے کابک میں بلّا آ دھمکا ہو۔
اُن دنوں ترقی پسند تحریک کا زور تھا۔ ترقی پسندوں نے اعتراض کیا کہ راشد
کے کلام میں داخلیت بہت ہے اور طبقاتی شعور بہت کم۔ یہ فرض کر لیا گیا کہ
وہ ادب برائے ادب کے نمائندہ ہیں۔ روایت پسندوں کو زبان، نفس مضمون اور
ہئیت، سبھی گراں گزرے۔ انھوں نے کہا کہ راشد کی نظمیں جنسی محرومی اور ذہنی
اختلال کا شاخسانہ ہیں۔ جب شاعر یا ادیب چوتھے، ممنوعہ کھونٹ کا رخ کرتا
ہے لکیر کے فقیر دانت پیسنے لگتے ہیں۔ ایک اور بات نقادوں کی سمجھ میں نہ آ
سکی کہ نظموں میں ’’میں‘‘ کا استعمال ایک شعری پیرایہ ہے۔ ضروری نہیں کہ
شاعر اپنا ذکر کر رہا ہو۔
یہ ابتدائی اور خوامخواہ کا شور شرابہ آخر ختم ہوا۔ اب ن م راشد کا شمار
جدید اردو شاعری کے بنیاد گذاروں میں ہوتا ہے۔ یہ کہنے میں بھی ہرج نہیں کہ
وہ اپنے باقی ہم عصروں کی بہ نسبت زیادہ پیچیدہ اور تہ دار شاعر ہیں۔
انھوں نے خوب سوچ سمجھ کر اور بڑے اہتمام سے اپنے لیے نیا شعری لہجہ وضع
کیا ہے۔
حال ہی میں راشد کے فن کا ایک فکر انگیز جائزہ انگریزی میں شائع ہوا ہے
مصنف ہیں شان پیو، جو مشی گن سٹیٹ یونی ورسٹی (ریاست ہائے متحدہ امریکہ)
میں ہندی اور جنوبی ایشیا کے ادب اور ثقافت کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ہندی کے
علاوہ اردو کی بھی اچھی بھلی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ
انھوں نے راشد کے کُل شعری سرمایے پر نظر ڈالی ہے۔ انھوں نے تیس نظمیں چنی
ہیں اور ان کی مدد سے راشد کی ترجیحات، شعری مزاج اور فکری مآخذ کا سراغ
لگانے پر توجہ دی ہے۔ کتاب کے دو حصے ہیں۔ پہلے ایک سو چالیس صفحے انتقاد
پر مشتمل ہیں۔ اس کے بعد تیسوں نظموں کا متن (رومن میں) اور ان کا لفظی
انگریزی ترجمہ پیش کیا ہے۔ ن م راشد کو انگریزی خواں دنیا میں متعارف کرانے
کی یہ اولیں اور بڑی حد تک کامیاب کاوش ہے۔
جن نکات پر شان پیو نے زور دیا ہے ان کا مختصراً ذکر کیا جاتا ہے۔ راشد کو
بخوبی علم تھا کہ روایت فہمی کے بغیر روایت شکنی بے معنی عمل ہے۔ روایت،
بیضہ آسا، فن کار کو تغذیہ بھی فراہم کرتی ہے، پالتی پوستی بھی ہے لیکن اس
کی پابندیوں سے رہا ہوے بغیر نئی فضا میں پرواز ممکن نہیں۔
اپنی نظموں اور تحریروں میں راشد نے انفرادی تجربے کو اجتماعی ساز و برگ پر
ترجیح دی ہے۔ اجتماعی سرشت چاہے قومیت پر مبنی ریاست کی شکل اختیار کرے یا
مذہبی شناخت کی یا کسی آئیڈیالوجی کی پابند ہو جائے، چاہے روایت پرستی یا
اشتراکی سوچ کا نتیجہ ہو، کھرے شاعر کی راہ میں رکاوٹ بن کر رہتی ہے۔ راشد
آزاد ہو، آزاد رہ، کے قائل ہیں۔ ان کی رائے میں اردو شعری روایت سے ایک نیا
تعلق استوار کرنے کا وقت آ پہنچا تھا کیوں کہ اس روایت پر فرسودگی غالب آ
چلی تھی اور اصلاح کی ضرورت تھی۔ دوسری طرف وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ یہی
روایت کلام کو ایک سطح پر استناد بھی عطا کرتی ہے اور اسی کو سامنے رکھ کر
اختلاف کی گنجائش بھی نکالی جا سکتی ہے۔
یہی سوچ کر راشد اپنے اسلوب اور شعری مظروفات کو بتدریج مگر پُرکاری سے
بدلتے اور بہتر بناتے رہے۔ ان کی کوشش تھی کہ ایسی شعری جمالیات وضع کی
جائے جس میں معاصرانہ واردات اور جدید فکر بھی سما سکے اور تبدیلیوں کے
باوجود وہ، بطور اردو شاعری، قابلِ فہم اور قابل شناخت بھی رہے۔ پرانے
قاعدوں کو محض توڑنا پھوڑنا کافی نہیں۔ پرانی بنیادوں ہی پر معاشرے اور ادب
کو ایسی شکل دینی چاہیے جس میں نئی روح جاری و ساری ہو۔ نمایاں حیثیت تو
ذاتی تجربے کی ہے لیکن راشد کہتے ہیں کہ یہ تجربہ کوئی پادر ہوا شے نہیں۔
شاعر، بہرحال، کسی نہ کسی معاشرے کا فرد ہوتا ہے بلکہ راشد کے نزدیک تو، جو
مدتوں ملک سے باہر رہے، عالمی معاشرے سے جڑا ہوتا ہے۔ اس کے تجربے معاشرے
کے عمومی رویوں کے خلاف بھی ہو سکتے ہیں اور ان رویوں سے ہم آہنگ بھی۔ گویا
ذاتی تجربات کی وحدت اور معاشروں کے تقاضے قطبین ہیں جن کے درمیان بہت سی
گردشیں اور قربتیں اور دُوریاں ہیں۔ اس فراست کی داد بھی راشد کو ملنی
چاہیے کہ انھوں نے بہت پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ سوویت روس بھی یورپی اقوام
یا ریاستہائے متحدہ امریکہ کی طرح استعماری قوت کا روپ دھار چکا ہے۔
چند نظموں پر شان پیو نے، بجا طور پر، زیادہ توجہ دی ہے، جیسے ’’دل مرے
صحرا نورد پیر دل‘‘ اور ’’میرے بھی ہیں کچھ خواب‘‘ اور ’’حسن کوزہ گر‘‘۔
آخرالذکر نظم کو اردو کے شعری سرمایے میں شاہکار کا رتبہ حاصل ہو چکا ہے۔
بعض ناقدین کی رائے میں عشق اور تخلیقی عمل کے بارے میں نظم میں جو کچھ کہا
گیا ہے وہ بے مثال ہے۔ اردو اور فارسی کی شعری روایت میں آدمی بھی مٹی کا
بنا ہے اور کوزہ بھی۔ دونوں کا شکست ہونا مقدر ہو چکا ہے۔ کوزے میں صہبا
سما سکتی ہے اور انسان کا دل معرفت کی مے سے لب ریز ہو سکتا ہے۔ اسی
صوفیانہ جہت کو لے کر راشد نے نظم میں اردو غزل کی کیفیات اور فرائیڈ اور
برگساں کی خیال آفرینی گھول کر ایک ایسا منظوم افسانہ ترتیب دیا ہے جسے
ہمیشہ پرکھا جوکھا جاتا رہے گا۔
تنقید کی کوئی کتاب ہو اس میں اختلاف کے پہلو نکل ہی آتے ہیں۔ شان پیو کی
بعض آرا سے پڑھنے والوں کو اتفاق ہوگا تو بعض سے اختلاف۔ چند چھوٹی موٹی
غلطیاں بھی نظر آئیں، مثلاً انھوں نے مغنی تبسم کے نام کو رومن میں لکھتے
ہوے سمجھا کہ ن پر تشدید ہے۔ اصل میں غ اور ن دونوں ہی ساکن ہیں۔
I too have some dreams by Sean Pue
ناشر یونیورسٹی آف کیلی فورنیا پریس، صفحات، 270؛ قیمت درج نہیں۔