§14ـ تماشاگہِ لالہ زار
تماشا گہِ لالہ زار،
"تیاتر" پہ میری نگاہیں جمی تھیں
مرے کان "موزیک" کے زیر و بم پر لگے تھے،
مگر میرا دل پھر بھی کرتا رہا تھا
عرب اور عجم کے غموں کا شمار
تماشا گہِ لالہ زار!
تماشا گہِ لالہ زار،
اب ایراں کہاں ہے؟
یہ عشقی کا شہکار۔"ایران کی رستخیز!"
اب ایراں ہے اک نوحہ گر پیر زال
ہے مدّت سے افسردہ جس کا جمال،
مدائن کی ویرانیوں پر عجم اشک ریز،
وہ نوشیرواں اور زردشت اور داریوش،
وہ فرہاد و شیریں، وہ کیخسرو و کیقباد
"ہم اک داستاں ہیں وہ کردار تھے داستاں کے!
ہم اک کارواں ہیں وہ سالار تھے کارواں کے!"
تہِ خاک جن کے مزار
تماشا گہِ لالہ زار!
تماشا گہِ لالہ زار،
مگر نوحہ خوانی کی یہ سر گرانی کہاں تک؟
کہ منزل ہے دشوار غم سے غمِ جاوداں تک!
وہ سب تھے کشادہ دل و ہوش مند و پرستارِ ربِّ کریم
وہ سب خیر کے راہ داں، رہ شناس
ہمیں آج م؛اوحسن کش و نا سپاس!
وہ شاہنشہانِ عظیم
وہ پندارِ رفتہ کا جاہوجلالِ قدیم
ہماری ہزیمت کے سب بے بہا تار و پو تھے،
فنا ان کی تقدیر، ہم ان کی تقدیر کے نوحہ گر ہیں
اسی کی تمنّا میں پھر سوگ وار
تماشا گہِ لالہ زار
تماشا گہِ لالہ زار،
عروسِ جواں سالِ فردا، حجابوں میں مستور
گرسنہ نگہ، زود کاروں سے رنجور
مگر اب ہمارے نئے خواب کابوسِ ماضی نہیں ہیں،
ہمارے نئے خواب ہیں، آدمِ نو کے خواب
جہانِ تگ و دو کے خواب!
جہانِ تگ و دو، مدائن نہیں،
کاخِ فغفور و کسریٰ نہیں
یہ اس آدمِ نو کا ماویٰ نہیں
نئی بستیاں اور نئے شہریار
تماشا گہِ لالہ زار!