§2ـ ایک دن۔لارنس باغ میں (ایک کیفیت)
بیٹھا ہوا ہوں صبح سے لارنس باغ میں
افکار کا ہجوم ہے میرے دماغ میں
چھایا ہوا ہے چار طرف باغ میں سکوت
تنہائیوں کی گود میں لیٹا ہوا ہوں میں
اشجار بار بار ڈراتے ہیں بن کے بھوت
جب دیکھتا ہوں ان کی طرف کانپتا ہوں میں
بیٹھا ہوا ہوں صبح سے لارنس باغ میں!
لارنس باغ! کیف و لطافت کے خلد زار
وہ موسمِ نشاط! وہ ایّامِ نو بہار
بھولے ہوئے مناظرِ رنگیں بہار کے
افکار بن کے روح میں میری اتر گئے
وہ مست گیت موسمِ عشرت فشار کے
گہرائیوں کو دل کی غم آباد کر گئے
لارنس باغ! کیف و لطافت کے خلد زار
ہے آسماں پہ کالی گھٹاؤں کا اژدہام
ہونے لگی ہے وقت سے پہلے ہی آج شام
دنیا کی آنکھ نیند سے جس وقت جھک گئی
جب کائنات کھو گئی اسرارِ خواب میں
سینے میں جوئے اشک ہے میرے رکی ہوئی
جا کر اسے بہاؤنگا کنجِ گلاب میں
ہے آسماں پہ کالی گھٹاؤں کا اژدہام
افکار کا ہجوم ہے میرے دماغ میں
بیٹھا ہوا ہوں صبح سے لارنس باغ میں!