§19ـ ایک اور شہر
خود فہمی کا ارماں ہے تاریکی میں رو پوش،
تاریکی خود بے چسم و گوش!
اک بے پایاں عجلت راہوں کی الوند!
سینوں میں دل یوں جیسے چسمِ آزِ صیّاد
تازہ خوں کے پیاسے افرنگی مردانِ راد
خود دیوِ آہن کے مانند
دریا کے دو ساحل ہیں اور دونوں ہی نا پید
شر ہے دستِ سیہ اور خیر کا حامل روئے سفید!
اک بارِ مژگاں، اک لب خند!
سب پیمانے بے صرفہ جب سیم و زر میزان
جب ذوقِ عمل کا سر چشمہ بے معنی ہذیان
جب دہشت ہر لمحہ جاں کند!
یہ سب اُفقی انساں ہیں، یہ ان کے سماوی شہر
کیا پھر اِن کی کمیں میں وقت کے طوفاں کی اک لہر؟
کیا سب ویرانی کے دلبند؟